مظفر خان کشمیری
جموں کشمیر بلخصوص وادی کشمیر اولیاؤں کا مرکز اور پیر واری کے نام سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔کشمیر میں جہاں مسلم سماج کی اکثریت ہے وہی کشمیری پنڈت ۔سکھ عیسائ۔ڈوگرہ اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی آباد ہے۔وادی کشمیر جس میں ہر طرح کے مذاہب سے وابستہ لوگ پیار محبت ۔پر امن اور اخلاص سے اپنی زندگی بسر کرتے تھے۔بغض حسد اور تخریب کاری سے دور دور کا بھی واستہ نہی تھا۔وادی کشمیر کے سادہ عوام مذہبی عقیدت کے ساتھ ساتھ سیاست بھی پر خلوص طریقے سے انجام دیتے تھے۔پھر کچھ بے ضمیر اور مفاد پرست سیاست دانوں نے کشمیر کو سیاسی عدم استحکام کی طرف دھکیل دے دیا۔اور وادی کشمیر کو عسکریت نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جس سے وادی کشمیر میں بھائ چارے کا تانا بانا بکھیر کر رکھ دیا۔جس سےلاکھوں لوگ قبرستانوں کی زینت بن گۓ جس کی وجہ سے وادی کشمیر کے لوگ ذہنی دباؤ کے شکار ہوگۓ۔عسکری رحجان سے عوام کچھ حد باہر آ چکی ہے مگر وادی کشمیر میں پھرمنشیات کا ایک خوفناک ناسور اور تباہ کن بیماری جس نےصرف وادی کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا ہے
اس نے مرد آہن ہی کو نہیں بلکہ صنف نازک کو بھی اپنی خوفناک زنجیروں میں جکڑ دیا ہے
ہزاروں خاندان اجڑ رہے ہیں لاکھوں زندگیاں برباد ہو رہی ہیں دولت فضول اور لایعنی مصرف پر تیزی کے ساتھ کم ہی نہیں بلکہ ضائع اور ختم ہوتی جا رہی ہے اور لیڈر اور رہنما کہلانے والا طبقہ قوم کے دانشور حضرات خواب خرگوش سوئے ہوئے ہیں
سرکاری اعداد شمار کے مطابق 13 لاکھ کے قریب افراد اس وقت منشیات ہیروئن حشیش چرس گھانجا جیسے مختلف نشہ آور اشیاء کی لت میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ غیر سرکاری اعداد شمار اس سے زیادہ بتاۓ جاتے ہیں۔
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس بیماری کی زد میں تقریبا ایک لاکھ لڑکیاں بھی آچکی ہیں
غریب تو غریب امیر حضرات بھی اپنے خزانے اس ہیبت ناک بلا کی لپیٹ میں گنوا چکے ہیں اور اپنے اکاؤنٹ خالی کرا چکے ہیں
رپورٹ کے مطابق کئی بچے ایسے ہیں جو ابھی دو تین سالوں میں ہی 50 ۔۔50 لاکھ سے بھی زیادہ رقم اس ہیبت ناک بیماری پر لٹا چکے ہیں
تفصیلات کے مطابق عموما ہیروئن کے سفید پاؤڈر کا ایک گرام بچوں کو 5 ہزار سے لے کر 7 ہزار تک کی رقم میں دستیاب ہوتا ہے اس اعتبار سے ہیروئن کا ایک کلو 70 لاکھ روپے کا جاتا ہے
ایک انجیکشن جسے نشہ خور شخص صرف تین بار استعمال کر سکتا ہے پانچ ہزار روپے میں دستیاب ہوتا ہے
سب سے محتاط اندازے کے مطابق ماہانہ خرچ تقریبا 90 ہزار روپیہ نشہ میں مبتلا شخص کو آتا ہے
دنیا کے 50 غریب افریقی ایشیائی اور لاطینی ممالک کا ریزرو کرنسی 100 ارب ڈالر سے زیادہ نہیں ہوگی بلکہ اگر یہ کہا جاۓ کہ ان کا مجموعی بجٹ بھی600 ارب ڈالر سے زیادہ نہیں ہوگا تو شاید یہ بات غلط نہ ہو لیکن دوسری طرف دیکھیے کہ پوری دنیا میں منشیات کی سالانہ تجارت چھ سو پچاس ارب ڈالر ہے
جو کہ بھارت ۔پاکستان اور بنگلہ دیش جیسی ممالک کی مجموعی ریزرو کرنسی سے بھی زیادہ ہے
انٹرنیٹ پر موجود تفصیلات کے مطابق دنیا میں نشے کی تقریبا 500 اقسام پائی جاتی ہیں جن میں بے ہوشی کی دوائیاں نیند آور دوائیاں کھانسی کی دوائیاں اور دیگر اقسام کی ٹیبلٹس بھی استعمال ہوتی ہیں ہیروئن افیم چرس شیش گانجا شراب پاؤڈرز اور مختلف انجکشن بھی استعمال ہوتے ہیں
نشے سے مجبور شخص کبھی کبھی جوتے کو پالش کیا جانے والا لیکوڈ کیمیکل بھی پیتا ہے اور کبھی 10۔۔۔ 15 روز تک موزوں کو استعمال کر کے اس کی بدبو کو سونگ سونگ کر نشے کی تسکین حاصل کرتا ہے
اندازہ لگائیے جب ایک انسان اس لت میں مبتلا ہو جاتا ہے تو وہ انسانیت کے اس گرے ہوئے معیار تک پہنچ جاتا ہے .پھر اس کے لۓ غلط صیح کا تمیز بھول جانا ایک فطرت ہے ۔اس فطرت کی وجہ سے وہ کوئ بھی غلط کام کر سکتا ہے۔وادی کشمیر میں جنسی دھندوں کا رحجان بڑھنے کا سبب بھی منشیات سے تجاوذ کیا جارہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق وادی کشمیر میں نشے میں مبتلا افراد زیادہ تر تعلیم یافتہ ہیں اور بہت کم ایسے ہیں جو ناخواندہ اور ان پڑھ ہیں۔ماہرین کا ماننا ہےبے روزگاری اور منشیات کے عادی نوجوان اپنی زندگی سے تنگ آگر موت کو گلے لگانے کے شوق کی وجہ سے عسکریت کا راستہ اختیار کرنے سے گریز نہی کر پاۓ گۓ۔ اس سے وادی کشمیر میں عسکریت بڑھنے کے اندیشے کو نظر انداذ نہی کیا جاسکتاہے۔
محکمہ پولیس کی طرف منشیات کے روکتھام کے لۓ اچھا کام دیکھنے کو مل رہا ہے۔منشیات کے کاروباریوں کے خلاف سخت قانون کے فقدان کی وجہ سے محکمہ پولیس اس وبا۶ کے روک تھام میں پوری طرح کامیاب نہی ہو پارہے ہیں ۔وادی کشمیر کے علماؤں اور ذی حس افراد کو چاہۓ کہ اس وبا۶ کی روک تھام کے لۓ متحد ہو کر آگے آنے کی ضرورت ہے حکومت کو چاہیۓ کہ وہ بے روزگار نوجوانوں اور منشیات کے عادی نوجوانوں کے لۓ مثبت باز آباد کاری پالسی مرتب کریں تاکہ نوجوان جو کہ قوم کا مستقبل ہے کو بچایا جا سکے اور وادی کشمیر کے پیر واری پر لگۓ اس دھبے کو مٹایا جاسکے اور عوام پھر سے پرسکون ۔خوشحال اور خرافات سے پاک زندگی گزار سکے۔۔۔